Select Language


بانیٔ تبلیغ حضرت مولانا محمد الیاسؒ (متوفی ۱۳۶۳ھ)

ولادت:

حضرت مولانا محمدالیاس صاحبؒ کی ولادت ۱۳۰۳ھ میں قصبہ ’’کاندھلہ‘‘ میںہوئی، آپ کا تاریخی نام الیاس اختر ہے، آپ کے والد محترم کا اسم گرامی مولانا محمد اسماعیل صاحب جھنجھانوی ہے جن کے تین بیٹے تھے، پہلی بیوی سے ایک صاحبزادے مولانا محمد صاحبؒ پیداہوئے، جو بھائیوں میں سب سے بڑے تھے، منجھلے صاحبزادے مولانا محمد یحییٰ صاحبؒ (والدماجد حضرت شیخ الحدیث مولانا زکریا صاحب) اور تیسرے اور سب سے چھوٹے صاحبزادے آپ ہیں۔

آپ کا بچپن اپنے نانہال ’’کاندھلہ‘‘ اور والد صاحب کے پاس نظام الدین میں گذرا، اس وقت کاندھلہ کا یہ خاندان دینداری کا گہوارہ تھا،مرد تو مرد عورتوں کی دینداری، عبادت گذاری، شب بیداری، ذکر وتلاوت کے قصے اور ان کے معمولات اِس زمانہ کے پست ہمتوں کے تصور سے بھی بالاتر ہیں، آپ کا یہ خاندان، اُن مبارک خانوادوں میں سے ہے، جن کے افراد وشخصیات نے اپنی علمی، دینی، روحانی اور انسانی خدمات سے اس ملک کی شہرت ونیک نامی کو چار چاند لگائے، اس خاندان کا تعلق صدیقی شیوخ سے ہے، آپ کے والد مولانا محمد اسماعیل اصلاً قصبہ جھنجھانہ کے رہنے والے تھے، لیکن مولانا ضیاء الحسن کی دختر سے عقدِ ثانی کے بعد آپ نے کاندھلہ ہی میں مستقل سکونت اختیار کرلی تھی۔

تعلیم:

آپ کی ابتدائی تعلیم خاندان کے دوسرے بچوں کی طرح کاندھلہ ہی کے ایک مکتب میں شروع ہوئی، تقریباً سوا پارے کا حفظ بھی مکتب کے حافظ صاحب کے سامنے کیا، اس کے بعد حفظ کی تکمیل اورفارسی وعربی کی ابتدائی کتابیں اپنے والد محترم اور کچھ مولانا حکیم محمد ابرار صاحب سے نظام الدین دہلی میں پڑھیں، پھر والد صاحب کی کثرتِ مشغولی کی بنا پر آپ کے برادرِ کبیر مولانا محمد یحییٰ صاحب جو پہلے سے حضرت گنگوہی کی خدمت میں رہتے تھے، اپنے ساتھ گنگوہ لے آئے پھر آپ نے انہیں سے پڑھا۔ گنگوہ اس وقت صلحا وفضلا کا مرکز تھا، آپ کو ان بزرگوں اور محدثِ وقت فقیہ النفس حضرت مولانا رشید احمد گنگوہی کی صحبت اور بابرکت مجالس کی دولتِ بے بہا شب وروز حاصل ہوئی، آپ کی دینی اور روحانی زندگی میں اس ابتدائی دور کا فیض برابر شامل رہا۔ ۱۳۲۶ھ میں آپ شیخ الہند حضرت مولانا محمودالحسن صاحبؒ کے حلقۂ درس میں شرکت کے لیے دیوبند آئے اور حضرت سے بخاری شریف، ترمذی شریف وغیرہ پڑھیں۔ آپ کے اندر ابتداء ہی سے صحابۂ کرام کی والہانہ شان کی ایک ادا اور دینی بے قراری کی ایک جھلک تھی جسے دیکھ کر حضرت شیخ الہند بھی فرمایاکرتے تھے کہ میں جب مولوی الیاس کو دیکھتا ہوں تو مجھے صحابۂ کرام یاد آجاتے ہیں۔ دینی حمیت آپ کی فطرت میں ودیعت تھی، ذکر واشغال نوافل وعبادات کے ساتھ شروع ہی سے مجاہدانہ جذبات موجزن تھے۔

تدریس کا آغاز:

شوال ۱۳۲۸ھ میں آپ مظاہر علوم سہارنپور میںاستاذ مقرر ہوئے۔ ۱۳۳۲ھ میں آپ نے حضرت شیخ الہند اور حضرت سہارنپوری کی معیت میں حج ادا فرمایا۔ ۱۰؍ذیقعدہ ۱۳۳۴ھ میں آپ کے بھائی مولانا یحییٰ صاحبؒ کا انتقال ہوا اوراس کے تقریباً ڈیڑھ سال بعد ۲۵؍ربیع الثانی کو آپ کے سب سے بڑے بھائی مولانا محمد صاحبؒ -جو والد صاحب کے بعد نظام الدین میں رہتے تھے- نے بھی انتقال فرمایا۔

نظام الدین منتقلی اورمیوات میں دعوت وتبلیغ کی ابتدا:

بڑے بھائی مولانا محمد صاحبؒ کے وصال کے بعد اور والد صاحب کے لگائے ہوئے شجر کی آبیاری کے لیے خاندان کے محبین ومعتقدین کے اصرار پر آپ نظام الدین منتقل ہوگئے، مسلمانوں کی طویل اور مسلسل غفلت، دین سے دوری و بے توجہی اور جہالت سے میو قوم کی حالت اس درجہ پر پہنچ گئی تھی جس کے بعد ارتداد کے علاوہ اور کوئی درجہ نہیں، یہ لوگ صرف برائے نام مسلمان تھے۔

میواتیوں سے تعلق تو آپ کے والد محترم مولانا محمد اسماعیل ہی کے زمانہ سے چلاآرہا تھا، آپ کے والد بزرگوار اور برادرِ کلاں مولانا محمدصاحب ہمیشہ یہی کوشش کرتے رہے کہ میواتیوں میں دینی تعلیم عام ہوجائے، اسی وجہ سے یہ حضرات اپنے یہاں میواتی طلبہ رکھتے تھے اور ان کو پڑھاتے تھے، لیکن آپ کا نظریہ اور اہلِ میوات کی اصلاح کی تدبیر آپ کے نزدیک صرف یہ تھی کہ ان میں دین کا علم پھیلایا جائے، شریعت کے احکام ومسائل سے انہیں واقف کرایا جائے، ان کی جہالت وبے دینی دور کی جائے، اور اس کام کے لیے آپ کی نظر میں خود میوات میں مکاتب کا قیام ضروری تھا، جب تک وہاں مکاتب کا قیام نہ ہوتو صرف خواص وافراد کی اصلاح اور دینی ترقی کو آپ اصل مرض کا علاج نہیں سمجھتے تھے، تبلیغی گشت کی ابتداء آپ نے ۱۳۴۵ھ کو سفرِ حج سے واپسی کے بعد ہی سے فرمادی تھی، پھر آپ نے دوسرے لوگوں کو بھی دعوت دی کہ عوام میں نکل کر دین کے اولین ارکان واصول (کلمۂ توحید ونماز) کی تبلیغ کریں، شروع میں یہ کام لوگوں کو بڑا بھاری معلوم ہوا، پھر رفتہ رفتہ محنت وکوشش سے فضا میں تبدیلی آئی، تو آپ کے متعلقین آپ سے میوات کے سفر کی درخواست کرتے، لیکن آپ شرط لگاتے کہ اگر وہاں میرے جانے سے مکاتب کا قیام ہوتو میں چل سکتا ہوں ورنہ نہیں۔ شروع شروع میں داعی حضرات آپ کی یہ شرط سن کر ٹھنڈے پڑجاتے، کیوںکہ ان کے نزدیک اس سے مشکل کوئی کام نہیں تھاکہ اپنے بال بچوں سے زراعت اور کاشت کے آلات لے کر ان کے ہاتھوں میں کتاب تھمادیں اور ان کو کھیتی باڑی سے ہٹاکر مکاتب میں بٹھادیں، جب کہ ان کو دین کی طلب اور قدر بھی نہ تھی۔ ایک مرتبہ ایک عقلمند داعی نے یہ سوچ کر مکاتب کے قیام کا وعدہ کرلیا کہ پہلے مولانا کو لے جانا تو چاہئے پھر جیسا کچھ ہوگا وہاںجاکر دیکھا جائے گا۔ چنانچہ میوات پہنچے، آپنے شرط پورا کرنے کا مطالبہ کیا، بڑے تقاضوں اور جدوجہد کے بعد ایک مکتب۱۳۲۴ھ میں قائم ہوا، اس طرح مکاتب کے قیام کا سلسلہ شروع ہوگیا، پھر اس سفر میں دس مکاتب قائم ہوئے، اس کے بعد کے اسفار میں بکثرت مکاتب قائم ہوئے، آپ میواتیوں سے فرماتے تھے کہ تم بچے دو معلّمین کی تنخواہ میںلائوںگاکچھ ہی مدت کے بعد کئی سو مکاتب قائم ہوگئے، جن میں قرآن کریم، دینیات اور اردو وغیرہ کی تعلیم ہونے لگی۔

کام کی وسعت:

میوات میںکام شروع ہونے کے بعد آہستہ آہستہ اس کے اطراف اور مظفرنگر، سہارنپور وغیرہ میں بھی کام کا چرچا ہوا، جماعتیں آنی شروع ہوئیں اور پھر تسلسل کے ساتھ جماعتوں کی آمد ورفت ہونے لگی، پھر برابرکام بڑھتا اور پھیلتا ہی گیا یہاں تک کہ دور دراز علاقوں پشاور وسندھ وغیرہ تک بھی جماعت کاسلسلہ آپ کی زندگی ہی میں پھیل گیا۔ کام کی وسعت سے آپ بہت خوش تھے لیکن اس کی صحت اور صحیح نہج پر قائم رہنے کے بارے میں بھی بڑے متفکر تھے، اس لیے احباب اور نظام الدین میں رہنے والے حضرات کو باربار ہدایات دیتے رہتے تھے۔

وفات:

صحت کے اعتبار سے تو آپ پہلے ہی سے کمزور تھے اس پر کام کی سخت محنت دین کی تڑپ اور مسلسل بے قراری نے آپ کو اندر اندر گھلادیا، اسفار کی کثرت، کھانے پینے کی بے احتیاطی اور آرام کی کمی نے جسمانی نظام کو بالکل درہم برہم کردیا، آخر کار مرض نے آگھیرا، پیچش کی شکایت ہوگئی اور کمزوری بڑھتی گئی، دو آدمیوں کے سہارے جماعت میں شرکت فرماتے، یہاں تک کہ کچھ ہی دنوں میں آپ بالکل صاحب فراش ہوگئے۔ حضرت مولانا عبدالقادر رائے پوریؒ، حضرت شیخ الحدیث وغیرہ کے مشورے سے کام کی ذمے داری کے لیے مولانا محمدیوسف صاحب کو متعین کیاگیا، آنے والی رات میں آپ کو دورہ پڑا پھر آخر شب میں مولانا محمد یوسف صاحب اور مولانا اکرام الحسن کو یاد کیا اور ان سے فرمایا: یوسف! آمل لے ہم تو چلے۔ بالآخر ۲۱؍رجب ۱۳۶۳ھ کو آپ نے اس دارِ فانی سے رحلت فرمائی۔

Copyright © 2021 Khadimul-Uloom All rights reserved.